Lekhny post -28-May-2022
۔۔۔۔۔۔۔۔کھچڑی محبت۔۔۔۔۔۔۔
گلے میں سیاہ رنگ کا دوپٹہ ڈالے ہاتھ میں پھلوں سے بھرا تھیلا لیے وہ چل رہی تھی کے راستے میں پڑے پتھر سے اس کی ٹھوکر ہوجاتی ہے آہ کمبخت اس کے منہ سے دلخراش چیخ نکلتی ہے اور سارے فروٹ زمین بوس ہو جاتے ہیں سامنے کھڑا لڑکا یہ منظر دیکھ کر اس کی جانب بڑھتا ہے اور سارے فروٹس اٹھانے میں اس کی مدد کرتا ہے۔
لڑکی مسکرا کر اس کا شکریہ ادا کرتی ہے۔
اور اس پورے وقت میں لڑکے کی نگاہ لڑکی کے چہرے پر پڑتی ہے اور مانو ٹہر سی جاتی ہے سیاہ چمکدار آنکھیں تیکھے نقوش وہ وہیں بیٹھے بیٹھے کھو جاتا ہے جبکہ وہ بمشکل آٹھ کر چلنے کی کوشش کرتی ہے۔
درد برداشت سے باہر ہو رہا ہوتا ہے موچ آجانے کی وجہ سے وہ صحیح طرح چل بھی نہیں پاتی وہ تو سوچ رہی تھی اچھا لڑکا ہے پھل اٹھوا دیئے مجھے بھی اٹھا دے گا مگر اپنی سوچ پر خود ہی لاحول پڑھتی ساری ہمت جمع کرکے خود ہی چلنے لگتی ہے ۔
کچھ دیر پہلے والی خوشی اب غصے کی صورت اختیار کر جاتی ہے جہاں کچھ وقت میں وہ گھر پہنچ جاتی تھی وہیں اب لڑنگڑ کر چلنے کی وجہ سے اچھا خاصا وقت لگ جاتا ہے۔
پر بلآخر وہ گھر پہنچ جاتی ہے مگر جیسے ہی وہ گھر میں داخل ہوتی ہے سامنے ہی اسے وہی لڑکا بیٹھا ہوا نظر آتا ہے۔
چھ فٹ قد گرے آنکھیں کیا باڈی بلڈر یار دونوں کی آنکھیں چار ہوتی ہے لڑکے کے لیے لمحہ بلکل تھم جاتا ہے مگر لڑکی کے غصے میں مزید اضافہ ہو جاتا ہے وہ اسے نظر انداز کر کے کچن کی جانب بڑھتی ہے جہاں اس کی ماں کچھ بنا رہی ہوتی ہے۔
امی یہ کون ہے اور یہاں کیا کر رہا ہے ۔
کیوں تم جانتی ہو اسے۔
نہیں پر یہ ہے کون۔
آؤ ملواتی ہوں تمہیں ۔
وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے اپنے ساتھ لیے لان میں آ جاتی ہے جہاں وہ کاؤچ پر بیٹھے ایک ادا سے کچھ سوچتا ہوا مسکرا رہا ہوتا ہے۔
فیض یہ میری بیٹی ہے عائشہ۔
او ہائے اسکی طرف مسکراہٹ لیے وہ ایسے ری ایکٹ کرتا ہے جیسے پہلی بار دیکھ رہا ہو۔
اور بیٹا یہ فیض ہے میری چاچا ذاد بہن کا بیٹا یہاں ہی ہاسٹل میں رہتا ہے ہمارے گھر پہلی بار آیا ہے۔
پر آنٹی جی اب تو آتا رہونگا عائشہ کی جانب دیکھ کر شریر مسکراہٹ لبوں پر سجائے وہ کہہ رہا تھا۔
ہاں کیوں نہیں بیٹا ضرور عائشہ کو بھی بھائی مل جائے گا۔
تمہیں پتہ ہے فیض عائشہ تمہاری دودھ شریک بہن ہے مطلب رضاعی بہن۔
جہاں یہ لفظ سنتے ہی فیض کا حلق تک کڑوا ہو جاتا ہے وہیں عائشہ کے لیے اپنی ہنسی کا گلا گھونٹا مشکل ہو جاتا ہے بھائی جی ۔
بولتی وہ وہاں سے چلی جاتی ہے۔
اب اسے اپنا وہاں رکھنا بے معنی لگتا ہے کچھ ہی دیر بعد وہ اداس ہو کر ہاسٹل واپس جانے کے بجائے اپنے دوست کے گھر چلا جاتا ہے اور وہاں جاکر اپنے دوستوں کو ساری کہانی سناتا ہے کیسے اس کی محبوبہ اس کی بہن نکلی۔
اس کا دوست پہلے خوب ہنستا ہے اور پھر اسے تسلی دیتا ہے کہ کوئی اور مل جائے گی ۔
فیض تو ابھی بھی اس سے محبت کر کیونکہ وہ تیری بہن ہے اور ساتھ ہی اسے مفت مشورہ دیتا ہے کہ اگر کوئی لڑکی پسند آئے تو پہلے پوچھ لینا کہ تم میری بہن تو نہیں کیوں کہ میں نے تمہیں اپنی دلہن بنانا ہے وہ دوست تھا اور دوست بھلا کب سیریس ہوتے دیکھ سکتے ہیں۔
دوستی تو وہ خوبصورت بندھن ہے جس میں بندھ کر انسان اپنا ہر غم بھول جاتا ہے اور مسکرا دیتا ہے۔
وہ قدرے سنبھل جاتاہے۔
اور جب وہ اگلے دن یونہی جاتا ہے تو پہلے والی ترو تازگی نہیں رہتی اس کے چہرے پر وہ اداس سا ہو تا ہے کیونکہ اس کے دل کی دنیا جو ویران ہو گئی تھی مگر اس کا دوست کہاں اسے اداس رہنے دے سکتا ہے بات بہ بات اسے چھیڑتا ہے۔
وہ غصے سے اذلان کا منہ بند کرنے کی لیے کرسی سے اٹھتا ہی ہے کہ اچانک سے پانی سے بھری بوتل اس کے منہ پر آ کر لگتی ہے اس کے منہ سے درد بھری آہ نکلتی ہے۔
اذلان کا منہ او شیو میں کھلتا ہے جبکہ فیض غصے سے پلٹ کر دیکھتا ہے دو لڑکیاں جنگلی بلیوں کی طرح لڑ رہی ہوتی ہیں۔
کیا آپ دونوں کا دماغ خراب ہو گیا ہے یا ازل سے ہی کام کرنا نہیں جانتا یہ کوئی عمر ہے بچوں کی طرح لڑائی کرنے کی وہ عبرش کس چہرہ نہیں دیکھ پایا تھا البتہ اسکی دوست کرن کو دیکھ کر اسنے سارا غصہ نکال دیا تھا۔۔
ہیلو مسٹر بائے مسٹیک آپ کو بوتل لگی تھی اور ویسے بھی غلطی ہماری نہیں آپ کے خود کے چہرے پر ہی سب سے لمبی آپکی ناک ہے کہے اس نے اسکی سرخ ہوتی ناک کو دیکھ کر کہا تھا وہ جان گئی تھی بوتل اس کی ناک پر لگی ہے تو دوبارہ ہمارے سامنے آنے سے پہلے اسے کٹوا کر آئیے گا عبرش بول کر فوراً وہاں سے چلی جاتی ہے۔
وہ یک ٹک اسے دیکھتا رہا تھا اس سے بھی بھلا کوئی خوبصورت ہو سکتا ہے۔
اذلان اسکے سامنے آتا ہے کیا ہوا فیض ۔
مگر وہ تو جیسے اس کی خوبصورتی میں اسے کھو جاتا ہے کہ اسے لگتا ہے وہ کسی پرستان میں ہے اچانک ہی وہ ازلان کو ہاتھ سے پکڑ کر اپنے قریب کرتا ہے اس کا ایک ہاتھ اپنے چہرے پر رکھتا ہے اور اسے ہلاتا ہوا گانا گانے لگتا ہے ۔
میں اگر کہوں تم سا حسیں کائنات میں نہیں ہے کہیں تعریف یہ بھی کم سچ ہے کچھ بھی نہیں ۔
ہوش تو تب آتا ہے جب ازلان اسے بھرپور طریقے سے اپنی بانہوں میں بھر کر بھینچ دیتا ہے ۔
وہ ایک دم حال میں لوٹتا ہے چھوڑو یہ کیا کر رہے ہو ازلان۔
میں کیا کر رہا ہوں اس سے پہلے تو کیا کر رہا تھا پتا ہے یہ دیکھ اس کا چہرہ وہ گھومتا ہے کینٹین میں موجود ساری عوام اس پر ہنس رہی ہوتی ہے وہ شرمندہ ہوتا ہوا وہاں سے چلا جاتا ہے۔
مگر اس کی سرخ ہوئی ناک میں ابھی بھی درد ہو رہا ہوتا ہے آہہہہہ جنگلی بلی کہیں کی یہ بولتے ہی وہ ازلان کو دیکھتا ہے جو اس کے ناک پر رکھے ہاتھ کو دیکھ کر ہنس رہا ہوتا ہے۔۔
تم چپ کر جاو ازلان ورنہ میں منہ توڑ دوں گا تمہارا
مگر ازلان کہاں چپ ہونے والا تھا اس کے قہقہے مزید بلند ہوگئے تھے وہ آگے آگے اور فیض اسے مارنے کے لئے پیچھے پیچھے۔
پھر وہ ہنستے ہنستے اداس ہو کر ایک جگہ بیٹھ جاتا ہے کیونکہ اسے عائشہ پھر سے یاد آنے لگتی ہیں۔
اذلان اسے دیکھتا ہے اسے کیا ہوا بولتا ہوا ساتھ ہی بیٹھ جاتا ہے۔
کیا ہوا فیض اپنی محبوبہ کی خوبصورتی میں کھو گئے ہو۔
نہیں انسان کو دل سے خوبصورت ہونا چاہیے۔
ہاں تبھی ہر خوبصورت لڑکی پر دل ہار بیٹھتے ہو تم کیسے سدھرو گے فیض بولتے ہی اس کی نظر پیچھے سے آ رہی عبرش پر پڑتی ہے اور وہ کھیسیانی ہنسی ہنستا ہوا بلند آواز میں کہتا ہے۔
فیض یار انعم کا نمبر تو دو۔
فیض کچھ حیران ہوتے ہوئے اسے دیکھتا ہے کون انعم۔
زیادہ معصوم مت بنو وہ جو میری بھابی تھی۔
اس کے بات سن کر نہ جانے عبرش کو عجیب سا لگتا ہے مجھے تو پہلی بار دیکھتے ہی پتہ چل گیا تھا یہ ایک نمبر کا ٹھرکی لڑکا ہے ۔۔۔
تم پھر آگئی ہو تمہاری آخر پرابلم کیا ہے لگتا ہے میں ٹھرکی نہیں تم ہی پہلی نظر میں مر مٹ گئی ہو مجھ پر وہ گہری نظروں سے اس کے چہرے کا طواف کرتے ہوئے بولا تھا۔
او جلے ہوئے بینگن کے منہ والے اپنے دوست کو لے کر نکلو یہاں سے ان نواب کی دماغی حالت ہی خراب ہے میں اور ان پر مر مٹ گئی توبہ توبہ اور دنیا میں لڑکے ختم ہو گئے ہیں کیا۔۔
اس کے لیے فیض کی آنکھوں میں دیکھنا مشکل ہو رہا تھا اس لئے وہ اسے نظر انداز کرکے ازلان سے مخاطب تھی۔
اوکے بھابھی جی آپ فکر نہ کریں میں سمجھا دوں گا۔
کیا کہا تم نے بھابھی۔
ہاں بھابھی کیوں جلا ہوا بیگن کہا تھا نا وہ بھی ازلان تھا بدلہ لینا خوب جانتا تھا۔
وہ پیر پٹختی واپس چلی جاتی ہے۔
مگر فیض پھر سے اپنا دل ہار بیٹھا ہے وہ جہاں جاتی اس کے پیچھے پیچھے پورا ایک ہفتہ وہ اسے یوں ہی تنگ کرتا رہتا مگر آج اسنے سوچ لیا تھا وہ اپنی محبت کا اظہار ضرور کرے گا ۔
وہ خوب تیار شیار ہو کر یونی پہنچتا ہے مگر اسے وہاں وہ کہیں نظر نہیں آتی۔
وہ دونوں کینٹین چلے جاتے ہیں جب عبرش کی دوست سن کے پاس آتی ہے۔
فیض یہ لو یہ عبرش نے دیا ہے تم دونوں کے لیے ۔
یہ کیا ہے۔
کارڈ۔
کیا کارڈ۔
خود دیکھ لو وہ ان کے ہاتھ میں تھما کر وہاں سے چلی جاتی ہے اور فیض جیسے ہی کارڈ کھولتا ہے وقت جیسے تھم جاتا ہے ایک بار پھر اس کے سر پر پہاڑ آگرتا ہے۔
دکھاؤ توصحیح ازلان اس کے ہاتھ سے کارڈ چھینتا ہے اور ایک بار پھر فضا میں زوردار قہقہہ بلند ہوتے ہیں۔
نور چشم صابر خان۔
نور چشمی عنزہ خان بنت ِ اقبال سے بروز جمعرات کے دن نکاح ہونا کرار پایا ہے ۔۔۔۔۔
خاص شرکت کی درخواست شادی مبارک۔۔۔۔۔۔
ہائے فیض میری نہ ہونے والی بھابھی بنے گی صابر خان کی دلہنیا ہاہاہاہاہاہاہا۔۔۔۔
اس لیے کہتا ہوں مت بھاگ اس سیراب کے پیچھے یہ عارضی شوق اور وقت کے ضیاع کے علاوہ کچھ نہیں ہے اس میں کچھ نہیں رکھا اس میں لگ کر زندگی برباد کرنے سے اچھا ہے کیریر پر دھیان دے۔۔۔۔۔
ختم شدہ۔۔۔
کھچڑی محبت۔۔
یہ کہانی ۔۔
زلِ رائیٹر یعنی میں سعدیہ ۔زوحان راجپوت ۔حمین ۔درفشان کنول اور ایمان نے گروپ میں بنائی تھی تو پڑھ کر بتائیں کیسی لگی آپکو۔۔۔۔
شکریہ ❣️
Anuradha
30-May-2022 08:33 PM
Wow.. Amazing story 👌😁
Reply
Mamta choudhary
30-May-2022 08:23 PM
Very nice 😂😂😂
Reply
Will Lester
29-May-2022 08:52 PM
Very nyc
Reply